Quantcast
Channel: Filmistan فلمستانسائنس فکشن | Filmistan فلمستان
Viewing all articles
Browse latest Browse all 3

Contact

$
0
0

In all our searching, the only thing we’ve found that makes the emptiness bareable is our selves.

ہماری زمین ابھی تک ساری کائنات میں واحد معلوم سیارہ ہے جس پر زندگی اپنی پوری آب و تاب سے موجود ہے، اور باوجود ہماری تلاش کے معلوم کائنات میں، جو کہ کروڑہا نوری سالوں پر محیط ہے، زندگی کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ اس کے باوجود یہ بات 100 فیصد یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ ہمارے اس چھوٹے سے سیارے سے پرے کوئی اور تہذیب یا زندگی موجود نہیں۔ کائنات میں زمین سے باہر زندگی کی یہ تلاش شروع ہوئے صرف چند دہائیاں ہی گزری ہیں اور اتنی جلدی نتائج اخذ یقینا جلد بازی ہے۔ کائنات کی مثال ایک لامتناہی بھوسے کے ڈھیر کی سی ہے اور اس میں کسی دوسری تہذیب کو ڈھونڈنا ایسا ہی کہ جیسے اس ڈھیر میں سوئی تلاش کی جائے، لیکن اگر اس کائنات میں ہمارے علاوہ کوئی اور بھی موجود تو اس سے ہمارا پہلا رابطہ کس طرح ہوگا؟ زیادہ سائنس دان یہی سمجھتے ہیں کہ یہ رابطہ ریڈیو سگنلز کے ذریعے ہوسکتا ہے کیونکہ یہ رابطے کا تیز ترین ذریعہ ہے۔1997ء میں ریلیز ہونے والی سائنس فکشن فلم “کانٹیکٹ” ایک ایسے ہی پہلے رابطے کی ایک کہانی ہے۔

سائنس فکشن کا نام لیتے ہی ذہن میں حقیقت سے ماوراء اور مافوق الفطرت کہانیاں آنے لگتی ہیں، حیرت انگیز صلاحیتوں کے حامل سپر ہیروز، جدید ترین خلائی جہاز اڑاتی مضحکہ خیز شکلوں والی خلائی مخلوق اور مستقبل قریب میں روبوٹس کی بغاوت وغیرہ لیکن کانٹیکٹ ایک بالکل دوسری قسم کی فلم ہے، ویسے تو ہر سائنس فکشن کہانی کو سائنسی اصولوں سے قریب تر رکھنے کی کوشش کی جاتی لیکن اگر کوئی کہانی عین سائنسی اصولوں کے مطابق لکھی گئی ہے تو وہ یہ فلم ہے۔

contact poster Contact

اس فلم کی کہانی کسی فکشن رائٹر کی بجائے ایک مشہور امریکی فلکیات دان کارل سیگن نے لکھی ہے۔ 1979ء میں کارل سیگن نے اپنی مشہور ترین ٹی وی سیریز “کاسموس” کے بعد ایک سائنس فکشن فلم کا اسکرین پلے وانر برادرز اسٹوڈیو کے لئے لکھنا شروع کیا لیکن وارنر برادرز نے جلد ہی فلم بنانے کا منصوبہ ترک کردیا، لیکن کارل سیگن اور ان کے اہلیہ این ڈریان نے کہانی پر کام جاری رکھا اور ستمبر 1985ء میں یہ کہانی ناول کی صورت میں شائع کی گئی۔ این ڈریان کے مطابق “کارل اور میرا خواب یہ تھا کہ ہم کچھ ایسا لکھیں جو کہ اصل رابطے کی قریب ترین خیالی شکل ہو”، اور حقیقت یہی ہے کہ سائنس فکشن فلموں میں دکھائے گئے یہ نظریات کہ خلائی مخلوق اڑن طشتریوں میں سفر کرتے ہوئے زمین پر آتی ہیں اور انسانوں کو اغواء کرکے لے جاتی ہیں محض انسانی تخیل ہے۔ 1996ء میں وارنر برادرز اسٹوڈیو نے فلم پر دوبارہ کام شروع کیا۔ کینسر کے عارضے میں مبتلاء ہونے کے باوجود کارل سیگن نے فلم کی تیاری میں وارنر برادرز کی بھرپور مدد کی لیکن فلم ریلیز ہونے سے قبل دسمبر 1996ء میں وہ انتقال کرگئے۔ فلم کانٹیکٹ جولائی 1997ء میں ریلیز کی گئی،اس فلم پر 90 ملین ڈالرز کی لاگت آئی جبکہ فلم نے دنیا بھر میں 171 ملین ڈالرز کمائے۔

کچھ فلمی سائنس

 

فلم کی کہانی میں کئی سائنسی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں، اس لئے میرا خیال ہے کہ مندرجہ ذیل سائنسی معلومات سے آپ کو کہانی سمجھنے میں آسانی رہے گی۔

ریڈیو فلکیات دانی: ریڈیو لہروں سے ہمارے ذہن میں ریڈیو اور ٹی وی نشریات آتی ہیں جنہیں ہم ریڈیو لہریں استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں نشر کرتے ہیں، لیکن بذاتِ خود ریڈیو لہریں نہ ہی آواز ہیں اور نہ ہی تصویر بلکہ ریڈیائی لہریں روشنی کی ایک قسم ہیں۔ روشنی کو اگر منشور سے گزارا جائے تو وہ بکھر جاتی ہے، اس بکھری ہوئی روشنی کا بہت چھوٹا سا حصہ ہم قوسِ قزح کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں لیکن روشنی کا بہت بڑا حصہ ہم انسان دیکھ نہیں دیکھ سکتے، ریڈیائی ، بالائےبنفشی، زیریں سرخ، ایکس رے اور گاما شعائیں اسی نادیدہ روشنی کا حصہ ہیں۔ریڈیو فلکیات دانی کائنات میں کسی دوسری ترقی یافتہ سائنسی تہذیب کی تلاش کے لئے بہت کارآمد ہے ہم ریڈیو ٹیلی اسکوپ استعمال کرکے زمین تک پہنچنے والی ریڈئی لہروں کا تجزیہ کرسکتے ہیں اور ان میں کسی دوسری دنیا سے بھیجے گئے پیغام (دانستہ و نادانستہ) کو وصول کرسکتے ہیں۔

آئن اسٹائن کا نظریہ خصوصی اضافیت: آئن اسٹائن کے مطابق ہم زمان و مکاں (ٹائم اور اسپیس) میں ایک متناسب سفر کررہے ہیں، اور اگر ہم اسپیس میں اپنی رفتار بڑھائیں تو وقت میں ہماری رفتار سست ہوجائے گی حتیٰ کہ روشنی کی رفتار کے قریب (99.9 فیصد) پر وقت تقریبا بلکل رک جائے گا، لیکن کوئی چیز 100 فیصد روشنی کی رفتار یا اس سے بڑھ کر سفر نہیں کرسکتی۔ وقت کے سست ہو نے کے اس عمل کو ٹائم ڈائلیشن کہتے ہیں اور یہ کئی تجربات سے ثابت ہوچکاہے۔ کائنات ناقابلِ بیان حد تک وسیع ہے اور اگر ہم معمول کی رفتار سے سفر کریں تو انسانی زندگی میں قریب ترین ستارے الفا سینٹوری تک بھی نہیں پہنچ سکیں گے لیکن اس سائنسی اصول کے مطابق اگر ہم روشنی کی رفتار کے قریب سفر کریں تو ہمارے خلائی جہاز میں موجود تمام گھڑیاں (برقی، میکانی یا حیاتیاتی) سست ہوجائیں گےاور خلائی جہاز کے وقت کے مطابق ہم 21 سال میں کہکشاں ملکی وے کے وسط سے ہوکر واپس آسکتے ہیں لیکن زمین کے وقت کے مطابق 21 سال نہیں بلکہ 30 ہزار سال گزرچکے ہوں گے۔ (دسمبر 2011ء میں سوئٹزرلینڈ میں واقع تجربہ گاہ لارج ہیڈرون کولائیڈرمیں ایک تجربے کے دوران نیوٹرینو ذروں نے روشنی سے تیز سفر کرکے دنیا بھر کے سائنسدانوں کو ورطہِ حیرت میں ڈال دیا ہے۔زیادہ تر سائنسدان وجوہات بتانے سے قاصر ہیں ، کچھ کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت میں واپسی کا سفر بھی ممکن ہےجبکہ ایک قلیل تعداد کے نزدیک نظریہِ خصوصی اضافیت کو ردی کی ٹوکری کی نذر کرنے کا وقت آگیا ہے۔اضافیت کے بارے میں مزید پڑھنے کے لئے ساتھی بلاگر مکی کی کتاب “ہم اضافیت اور کائنات” کامطالعہ ضرور کریں۔)

ورم ہول: اگر کائنات کی ہئیت سمجھنا مقصود ہو تو اس پر کئی پیراگراف لکھے جاسکتے ہیں لیکن اگر صرف فلم کو سمجھنا ہے تو یہ بذاتِ خود زماں و مکاں میں ایک شارٹ کٹ ہےجس سے گزرنے کے بعد کائنات میں کسی اور جگہ اور زمانے میں کسی اور وقت پہنچا جاسکتا ہے۔

پلاٹ

فلم کی کہانی ایک باصلاحیت سائنسدان ایلی نور ایروے (جوڈی فاسٹر) کے گرد گھومتی ہے جو کہ ایراسیبو آبزرویٹری، پورٹو ریکو میں ایس ای ٹی آئی (سرچ فار ایکسٹرا ٹیریسٹیئل انٹیلی جنس)  پروگرام پر کام کررہی ہوتی ہے، ڈیوڈ ڈرملن (ٹام سکیرٹ) جو کہ ایک سرکاری سائنسدان ہے ایس ای ٹی آئی پروگرام کے فنڈز رکوا دیتا ہے کیونکہ وہ اس پروگرام کو بیکار کی مشق سمجھتا ہے۔ایلی کے نزدیک یہ ایک اہم پروجیکٹ ہوتا ہے اس لئے وہ اس کام کے لئے نجی اداروں سے سرمایہ حاصل کرنے کی کوشش اور کافی محنت کے بعد ایک ارب پتی کاروباری شخصیت ایس آر ہیڈن (جان ہرٹ) اس پروگرام کو اسپانسر کرنے پر راضی ہوجاتا ہے۔ ہیڈن انڈسٹریز سے حاصل ہونے والے سرمائے کی بدولت ایلی ایس ای ٹی آئی پروگرام کو سکارو کاؤنٹی نیومیکسیکو میں واقع وی ایل اے (ویری لارج ایرے) ریڈیو آبزرویٹوری میں جاری رکھتی ہے۔

چار سال بعد ایلی اپنی عادت کے مطابق ریڈیو ٹیلی اسکوپ کے ذریعے موصول ہونے والے سگنلز کو سن رہی ہوتی ہے کہ اسے ایک انتہائی طاقت ور سگنل موصول ہونا شروع ہوتا ہے۔ یہ سگنل آسمان پر پانچویں چمکدار ترین ستارے ویگا کی قریب سے آرہا ہوتا ہے۔ شروع میں تو سگنل کافی دیر تک ایک مستقل اتار چڑھاوَ رکھتا ہے لیکن بعد میں اتار چڑھاوَ میں وقفہ آنے لگتا ہے اور یہ درمیانی وقفہ سگنل کو پرائم اعداد (ایسے اعداد جوصرف خودپر اور ایک پر ہی مکمل تقسیم ہوسکتے ہیں) کی صورت میں ظاہر کرنے لگتا ہے۔ مستقل اتار چڑھاؤ والے سگنل کا منبع قدرتی بھی ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر پلسار وغیرہ, لیکن پرائم اعداد کی پیچھے یقینا کسی کا ذہن کام کررہا ہے یعنی ایسا سگنل صرف سوجھ بوجھ رکھنے والی سائنسی طور پر ترقی یافتہ مخلوق کی طرف سے ہی بھیجا جاسکتا ہے۔ 26 نوری سال کے فاصلے سے آنے والا یہ پیغام کسی بھی دوسری تہذیب کا انسانی تہذیب سے پہلا رابطہ ہوتا ہے۔ یہ اپنی نوع کا عظیم ترین واقعہ ہوتا ہے، اس لئے قومی مشیر برائے دفاع مائیکل کٹز (جیمز ووڈ) اور صدارتی مشیر برائے سائنس ڈیوڈ ڈرملن وی ایل اے آبزرویٹوری کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کرتے ہیں تو ایلی اور مائیکل کٹز کے درمیان بحث چھڑ جاتی ہے۔ اسی دوران سگنل کا مزید تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کے ایک اور سگنل جو کہ ویڈیو ہے وہ بھی موصول ہورہا ہے۔ ٹی وی مانیٹر پر دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ 1936ء کے برلن اولمپکس کی افتتاحی تقریب سے ایڈولف ہٹلر کے خطاب کا ایک ویڈیو کلپ ہے۔

دراصل 1936ء کے برلن اولمپکس میں ہٹلر کا خطاب وہ پہلا طاقتور ٹی وی سگنل تھا جو خلاء میں سفر کرسکتا تھا یہ سگنل 26 سال مسلسل سفر کرنے کے بعد ویگا تک پہنچا۔ وہاں کے باشندوں نے اسے ریکارڈ کرکے دوبارہ زمین کی طرف نشر کیا تاکہ اپنی موجودگی کا اعلان کرسکیں۔ مزید تجزیے سے معلوم ہوا کہ اس سگنل میں صرف ہٹلر کی ویڈیو ہی نہیں بلکہ 60 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل تحریر موجود ہے۔ حکومت کی جانب سے اس تحریر کا ترجمہ (ڈی کوڈ) کرنے کے لئے ماہرین کے خدمات حاصل کی جاتیں ہیں لیکن ماہرین کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوتی ایسے میں ایلی کا محسن اور اسپانسر ایس آر ہیڈن ایلی کو بتاتا ہے کہ یہ صفحات سہہ جہتی (تھری ڈی) ترتیب سے لگائے جائیں تو ازخود ترجمے میں مددگار مساوات فراہم کردیں گے۔ جب ان مساوات کے ذریعے ان صفحات کا ترجمہ کیا گیا تو یہ ایک مشین تیار کرنے کا ہدایت نامہ تھا۔ ایک مشین جو صرف ایک مسافر کو ایک دوسری دنیا میں آباد ایک مختلف تہذیب تک لے جائے۔ ایسی مشین بنانے پر جو انتہائی مہنگی ہو، اور جس کے بارے میں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اسے بنانا محفوظ ہے کہ نہیں، کئی لوگوں کے تحفظات ہوتے ہیں لیکن کافی مباحثے کے بعد حکومت اسے بنانے پر راضی ہوجاتی ہے۔

اب یہ مشین کام کرتی ہے یا نہیں، اس میں بیٹھ کر بنی نوع انسان کا نمائندہ بن کر ایک دوسری تہذیب کے باشندوں کے کے پاس جانے کا موقع کسے ملتا ہے؟ اور چھبیس نوری سال کا سفر کرنے کے بعد آخر کس سے ملاقات ہوتی ہے، یہ فلم دیکھے بغیر معلوم ہوجائے تو پھر مزا نہیں آئے گا۔

تبصرہ

“کانٹیکٹ” خلائی مخلوق کے موضوع پر ایک بہت الگ اور میرے نزدیک سب سے بہترین فلم ہے، فلم کی کہانی ایک فلکیات دان کے ناول پر مبنی ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فلم محض سائنسی، جذبات سے عاری اور بور ہوگی، جن لوگوں نے کارل سیگن کی ٹی وی سیریز کاسموس دیکھ رکھی ہے وہ جانتے ہونگے کہ کارل سیگن کا انداز کتنا تخلیقی ہے۔ فلم میں کہانی کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے، کہانی میں جذبات بھی ہیں اور محبت بھی ،سائنس اور مذہب کی قدیم بحث بھی اور خود سائنسدانوں میں موجود پیشہ ورانہ رقابت بھی۔

فلم میں گرافکس کا بھی شاندار استعمال کیا گیا ہے،۔فلم کاآغاز ہی ہمارے نظامِ شمسی کے خوبصورت منظر سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت کے امریکی صدر کے بل کلنٹن کی اس تقریر کو جو انہوں نے مریخ پر زندگی کے آثار ملنے پر کی تھی، کو ایڈیٹنگ کے ذریعے فلم کا حصہ بنایا گیا ہے۔جوڈی فاسٹر جنہوں نے ایلی ایروے کا کردار نبھایا ہے، کمال کی اداکاری کی ہے۔ ناظرین کے جانب سے فلم کو اچھی ریٹنگز دی گئی ہیں اور ویب سائٹ روٹن ٹماٹوز پر اسکی ریٹنگ 6.8 ہے۔

ٹریلر

 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 3

Latest Images

Trending Articles





Latest Images